ہمیں ہیں جنہیں عشق ہے بانکپن سے
ہمیں ہیں جو الجھیں ہیں دار و رسن سے
کسی جسم کا حسن ہے پیرہن سے
کہیں پیرہن خود سجا ہے بدن سے
یہ مانا ہے جنت بہت خوب صورت
مگر خوب صورت نہ ہوگی وطن سے
گلوں نے چرایا ترا حسن رنگیں
معطر فضا ہے ترے پیرہن سے
نہ تیشہ نہ سر کام آیا وفا میں
صدا آ رہی ہے یہ جوئے لبن سے
تڑپ کر نہ مر جائے بلبل قفس میں
نہ لے جائے گل کوئی گلچیں چمن سے
رقیبوں سے سرگرم ہے ان کی محفل
فقط نورؔ ہے دور اس انجمن سے
غزل
ہمیں ہیں جنہیں عشق ہے بانکپن سے
نور محمد نور