ہمیں ہیں در حقیقت اپنے قاری
ہمیں تک بات پہنچے گی ہماری
کہیں پر سر چھپانا ہی پڑے گا
اگر ہوتی رہے گی سنگ باری
کبھی فرصت ملے ہم کو تو سوچیں
کوئی منظر ہے کتنا اعتباری
سبھی کو دھوپ میں تپنا پڑے گا
جہاں سورج کی پہنچی ہے سواری
مقدر ہو چکی خردہ فروشی
یوں ہی گنتے رہو بس ریز گاری
مجھے ہر آن کھائے جا رہا ہے
مرے احساس کا کتا شکاری
ہر اک دیوار گرتی دیکھتا ہوں
بہت مہنگی پڑی ہے ہوشیاری

غزل
ہمیں ہیں در حقیقت اپنے قاری
حامد حسین حامد