ہمیشہ تنگ رہا مجھ پہ زندگی کا لباس
کبھی کھلا نہ مرے جسم پر خوشی کا لباس
حسین پھولوں کی صحبت میں اور کیا ہوتا
الجھ کے رہ گیا کانٹوں میں زندگی کا لباس
جو جل گیا ہے وہی جانتا ہے اپنی جلن
کسی کے جسم پہ اٹتا نہیں کسی کا لباس
یہ کیا ستم کیا تم نے تو چاک کر ڈالا
ذرا ذرا سا مسکنا تھا دوستی کا لباس
سنبھل سنبھل کے چلو احتیاط سے پہنو
بڑے نصیب سے ملتا ہے آدمی کا لباس
لباس دار سے مجھ کو ڈرانے والو سنو
پہن کے آج میں آیا ہوں خود کشی کا لباس
وہ اک فقیر تھا جس نے اتار پھینکا تھا
سفید پوشوں کے منہ پر تونگری کا لباس

غزل
ہمیشہ تنگ رہا مجھ پہ زندگی کا لباس
اصغر مہدی ہوش