EN हिंदी
ہمیشہ سیر گل و لالہ زار باقی ہے | شیح شیری
hamesha sair-e-gul-o-lala-zar baqi hai

غزل

ہمیشہ سیر گل و لالہ زار باقی ہے

مرزا مسیتابیگ منتہی

;

ہمیشہ سیر گل و لالہ زار باقی ہے
اگر بغل میں دل داغدار باقی ہے

طفیل روح مرا جسم زار باقی ہے
ہوا کے دم سے یہ مشت غبار باقی ہے

بغیر روح رواں جسم زار باقی ہے
نکل گئی ہے سواری غبار باقی ہے

بہار میں تجھے نالے سناؤں گا بلبل
اگر یہ زندگئ مستعار باقی ہے

کہوں گا یار سے اک روز ہاتھ پھیلا کے
مجھے بھی حسرت بوس و کنار باقی ہے

جہاں کو چشم حقیقت سے دیکھ او غافل
کھلی ہے آنکھ ابھی اختیار باقی ہے

امید ہے ہمیں فردا ہو یا پس‌ فردا
ضرور ہوئے گی صحبت وہ یار باقی ہے