ہمیشہ خون شہیداں کے رنگ سے آباد
یہ کربلائے معلیٰ یہ بصرہ و بغداد
جہاں کو پھر سے نوید بہار دیتے ہیں
ابو غریب کی جیلوں کے کچھ ستم ایجاد
حیات و مرگ کے سب مرحلے تمام ہوئے
کفن لپیٹ کے نکلے ہیں ہرچہ باد آباد
پرانی بستیاں سب خاک و خوں میں غلطاں ہیں
''کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد''
لبوں پہ خیر کے نعرے ہیں اور کچھ بھی نہیں
دلوں میں جاگ رہا ہے ضمیر ابن زیاد
عراق خون شہیداں سے سرخ رو ہوگا
بموں کے ڈھیر ہیں لانچر ہیں تیشۂ فرہاد
پہنچ گئے ہیں ہم ایسے دیار میں کہ وحیدؔ
جہاں گناہ تو لازم ہے نیکیاں برباد
غزل
ہمیشہ خون شہیداں کے رنگ سے آباد
وحید قریشی