ہمیشہ دل میں رہتا ہے کبھی گویا نہیں جاتا
جسے پایا نہیں جاتا اسے کھویا نہیں جاتا
کچھ ایسے زخم ہیں جن کو سبھی شاداب لگتے ہیں
کچھ ایسے داغ ہیں جن کو کبھی دھویا نہیں جاتا
عجب سی گونج اٹھتی در و دیوار سے ہر دم
یہ خوابوں کا خرابہ ہے یہاں سویا نہیں جاتا
بہت ہنسنے کی عادت کا یہی انجام ہوتا ہے
کہ ہم رونا بھی چاہیں تو کبھی رویا نہیں جاتا
غزل
ہمیشہ دل میں رہتا ہے کبھی گویا نہیں جاتا
عالم خورشید