ہمیشہ دل میں جو اپنے خیال زلف و کاکل ہے
تو سینے میں نفس ہر ایک موج بوئے سنبل ہے
فساں ہے سخت جانی میری تیغ ناز قاتل کو
کہ یاں جتنا ہے رنج نزع اتنا واں تغافل ہے
مجھی کو کچھ تو اپنے کوچے میں آنے نہیں دیتا
وگرنہ اے ستم ایجاد ہر گلشن میں بلبل ہے
تری میناۓ گردن کی صفت کی ہے جو اے ساقی
مری آواز کو کہتے ہیں سب آواز قلقل ہے
وہی دل ہے بھرا ہو نشہ جس میں جام وحدت کا
کہ ہے چھاتی کا پتھر بزم میں شیشہ جو بے مل ہے
مرے جو سوز غم سے جل کے ہو وہ نیک نام آخر
چراغ مردہ کو اکثر یہی کہتے ہیں سب گل ہے
دیا سامان گلشن ہم کو ہجر رشک گلشن نے
پریشانی ہے سنبل نالہ بلبل داغ دل گل ہے
لکھی ہیں وصف یاں تک نرگس مخمور ساقی کی
ہے خامہ گردن مینا صریر خامہ قلقل ہے
بڑھا کر ربط کیونکر کم نہ منہ دکھلائے وہ مہ رو
ہوا جب ماہ کامل دن پہ دن اس کو تنزل ہے
بہاتی ہے کہیں بھی موج نقش بوریا خس کو
نہ دے گا ناتواں کو رنج جو صاحب تحمل ہے
کہا اس گل نے کل سامان گلشن میں بھی رٹتا ہوں
جو عاشق ہے مرا نالوں سے وہ ہم چشم بلبل ہے
خط و رخسار و چشم و زلف دکھلا کر لگا کہنے
یہ ریحاں ہے یہ گل ہے اور یہ نرگس ہے یہ سنبل ہے
خیال زلف جاناں میں جو روؤں تو اگے سنبل
وزیرؔ آنسو مرا ہر ایک گویا تخم سنبل ہے
غزل
ہمیشہ دل میں جو اپنے خیال زلف و کاکل ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی