EN हिंदी
ہمیں یوں ہی نہ سر آب و گل بنایا جائے | شیح شیری
hamein yunhi na sar-e-ab-o-gil banaya jae

غزل

ہمیں یوں ہی نہ سر آب و گل بنایا جائے

ذوالفقار عادل

;

ہمیں یوں ہی نہ سر آب و گل بنایا جائے
ہمارے خواب دئے جائیں دل بنایا جائے

دکھائی دیتا ہے تصویر جاں میں دونوں طرف
ہمارا زخم ذرا مندمل بنایا جائے

اگر جلایا گیا ہے کہیں دیے سے دیا
تو کیا عجب کہ کبھی دل سے دل بنایا جائے

شدید تر ہے تسلسل میں ہجر کا موسم
کبھی ملو کہ اسے معتدل بنایا جائے

یہ نقش بن نہیں سکتا تو کیا ضروری ہے
خراب و خستہ و خوار و خجل بنایا جائے