ہمیں تو ساتھ چلنے کا ہنر اب تک نہیں آیا
دیا اپنے مقدر کا نظر اب تک نہیں آیا
تھیں جس بادل کے رستے پر ہوا کی منتظر آنکھیں
وہ شہروں تک تو آیا تھا ادھر اب تک نہیں آیا
نہ جانے جنگلوں میں ہم ملے کتنے درختوں سے
گھنا جس کا لگے سایہ شجر اب تک نہیں آیا
تذبذب کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے وہ اک وعدہ
پلٹ کر جس کو آنا تھا وہ گھر اب تک نہیں آیا
سجانا چھوڑ دے پھولوں کو ان چاندی سے بالوں میں
فلک پر وہ ستارا اک اگر اب تک نہیں آیا
بھلا کر بس ذرا سی دیر سجدوں کی عبادت کو
یہ سوچو کیوں دعاؤں میں اثر اب تک نہیں آیا
جہاں لاکھوں محبت کے چراغوں سے اجالا ہو
فرحؔ روشن کسی دل کا وہ در اب تک نہیں آیا

غزل
ہمیں تو ساتھ چلنے کا ہنر اب تک نہیں آیا
فرح اقبال