EN हिंदी
ہمیں تو ایک ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے | شیح شیری
hamein to ek hi chehra dikhai deta hai

غزل

ہمیں تو ایک ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے

رئیس اختر

;

ہمیں تو ایک ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے
جسے بھی دیکھیے اپنا دکھائی دیتا ہے

یہ کس نے ایسے اجالوں کی آرزو کی تھی
ہر ایک گھر یہاں جلتا دکھائی دیتا ہے

نئی سحر نے اجالے جنم دئے ہیں مگر
یہ خواب پھر بھی ادھورا دکھائی دیتا ہے

یہاں جو بانٹتا پھرتا ہے تشنگی کا بھرم
مجھے تو خود بھی وہ پیاسا دکھائی دیتا ہے

تلاش ہے مجھے اس مہرباں کی مدت سے
جو محفلوں میں بھی تنہا دکھائی دیتا ہے

دھواں ہے جلتے ہوئے گھر سلگتے نظارہ
میں کیا بتاؤں کہ کیا کیا دکھائی دیتا ہے

اسے بھی کیجیے اپنے گروہ میں شامل
یہ شخص اپنے ہی جیسا دکھائی دیتا ہے

یہ کیسی آگ میں ہم لوگ جل رہے ہیں رئیسؔ
ہر اک وجود پگھلتا دکھائی دیتا ہے