EN हिंदी
ہمیں تو اب کے بھی آئی نہ راس تنہائی | شیح شیری
hamein to ab ke bhi aai na ras tanhai

غزل

ہمیں تو اب کے بھی آئی نہ راس تنہائی

مہتاب حیدر نقوی

;

ہمیں تو اب کے بھی آئی نہ راس تنہائی
تمہیں بتاؤ کہ ہے کس کے پاس تنہائی

اسے بھی اب کے بہت رنج نارسائی ہے
کھڑی ہے شہر کی سرحد کے پاس تنہائی

اسی لیے تو نہ صحرا میں ہے نہ بستی میں
کہ ہو نہ جائے کہیں بے لباس تنہائی

طویل ہجر نے دونوں کو یوں خراب کیا
کہ اس کے پاس نہ اب میرے پاس تنہائی

اندھیری رات میں آنکھوں میں خواب کی صورت
کبھی کبھی نظر آئی اداس تنہائی