ہمیں تقسیم کرنے کا ہنر ان پر نرالا ہے
مگر ان کو ہرانے کا ارادہ ہم نے پالا ہے
زمانے بھر کے رنج و غم کبھی مجھ کو دئے اس نے
کبھی جب لڑکھڑایا تو مجھے بڑھ کر سنبھالا ہے
مکھوٹے وہ سدا جھوٹے لگا کر ہم سے ہے ملتا
بہت شاطر پڑوسی ہے جنم سے دیکھا بھالا ہے
کیا جو بزم میں ذکر وفا ان کی تو وہ بولے
نہیں جو مدعا اس بات کو پھر کیوں اچھالا ہے
کسی سے قرض لے کر شہر کو پھر جائے گا ہریاؔ
عدالت نے جو اس کا فیصلہ ہی کل پہ ٹالا ہے
بکے ہیں لوگ دینے کو گواہی جھوٹ کے حق میں
مگر سچ جانتے ہیں جو انہیں کے منہ پہ تالا ہے
برائی ختم کرنے کو بروں کا ہاتھ بھی تھاما
اثرؔ کانٹے سے ہم نے پاؤں کا کانٹا نکالا ہے

غزل
ہمیں تقسیم کرنے کا ہنر ان پر نرالا ہے
پرمود شرما اثر