ہمیں راس آنی ہے راہوں کی گٹھری
رکھو پاس اپنی پناہوں کی گٹھری
بدل جائے کاش اس حسیں مرحلے پر
ہماری تمہاری گناہوں کی گٹھری
محبت کی راہیں تھیں ہموار لیکن
ہمیں ڈھو نہ پائے نباہوں کی گٹھری
تکلف کے سامان بکھرے تھے باہم
سو باندھے رہے ہم بھی بانہوں کی گٹھری
اجالے کے ہیں ان دنوں دام اونچے
چلو لوٹ لیں رو سیاہوں کی گٹھری
دھری رہ گئی منصف دل کے آگے
بیانوں کی گٹھری گواہوں کی گٹھری
نہ اگلی ہی جائے نہ نگلے بنے ہے
گلے میں پھنسی ایک آہوں کی گٹھری
یہ سوکھی ہوئی فصل غم جی اٹھے گی
اگر کھل گئی ان نگاہوں کی گٹھری
اٹھیں گی کسی روز سیلاب بن کر
یہ آبادیاں ہیں تباہوں کی گٹھری
مری سیدھی سادی سی باتوں پہ مت جا
مری ذات ہے کج کلاہوں کی گٹھری

غزل
ہمیں راس آنی ہے راہوں کی گٹھری
بکل دیو