EN हिंदी
ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا | شیح شیری
hamein nasib koi dida-war nahin hota

غزل

ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا

عبد الوہاب سخن

;

ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا
جو دسترس میں ہماری ہنر نہیں ہوتا

میں روز اس سے یہیں ہم کلام ہوتا ہوں
درون روح کسی کا گزر نہیں ہوتا

جلا دئے ہیں کسی نے پرانے خط ورنہ
فضا میں ایسا تو رقص شرر نہیں ہوتا

محبتوں کے کئی اسم میں نے پڑھ ڈالے
عجب طلسم ہے وا اس کا در نہیں ہوتا

اگر میں شب کی سیاہی نہ چیر کر نکلوں
کوئی اجالا مرا ہم سفر نہیں ہوتا

کسی کے نقش قدم کی تھی جستجو ورنہ
میں اس طرح تو سخنؔ در بدر نہیں ہوتا