ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے
ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو وہی پرانے والے
ان کے ہوتے کوئی کمی ہے راتوں کی رونق میں
یادیں خواب دکھانے والی خواب سہانے والے
کہاں گئیں رنگین پتنگیں لٹو کانچ کے بنٹے
اب تو کھیل بھی بچوں کے ہیں دل دہلانے والے
وہ آنچل سے خوشبو کی لپٹیں بکھراتے پیکر
وہ چلمن کی اوٹ سے چہرے چھب دکھلانے والے
بام پہ جانے والے جانیں اس محفل کی باتیں
ہم تو ٹھہرے اس کوچے میں خاک اڑانے والے
جب گزرو گے ان رستوں سے تپتی دھوپ میں تنہا
تمہیں بہت یاد آئیں گے ہم سائے بچھانے والے
تم تک شاید دیر سے پہنچے مرا مہذب لہجہ
پہلے ذرا خاموش تو ہوں یہ شور مچانے والے
ہم جو کہیں سو کہنے دینا سنجیدہ مت ہونا
ہم تو ہیں ہی شاعر بات سے بات بنانے والے
اچھا پہلی بار کسی کو میری فکر ہوئی ہے
میں نے بہت دیکھے ہیں تم جیسے سمجھانے والے
ایسے لبالب کب بھرتا ہے ہر امید کا کاسہ
مجھ کو حسرت سے تکتے ہیں آنے جانے والے
سفاکی میں ایک سے ہیں سب جن کے ساتھ بھی جاؤ
کعبے والے اس جانب ہیں وہ بت خانے والے
میرے شہر میں مانگ اب تو بس ان لوگوں کی ہے
کفن بنانے والے یا مردے نہلانے والے
گیت رسیلے بول سجیلے کہاں سنو گے اب تم
اب تو کہتا ہے عرفانؔ بھی شعر رلانے والے
غزل
ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے
عرفان ستار