ہمیں کچھ اور جینا ہے تو دل کو شاد رکھیں گے
بہت کچھ بھول جائیں گے بہت کچھ یاد رکھیں گے
ابھی کچھ اور کرتب دیکھنے بھی ہیں دکھانے بھی
تماشہ گاہ عالم ہم تجھے آباد رکھیں گے
اگر گھر کا خیال آیا تو رستہ بھول جائیں گے
سفر میں دشت کو جاتے ہوئے ہم یاد رکھیں گے
مقابل آئیں گے ہر بار تازہ حوصلہ لے کر
تجھے ہم آزمائش میں ستم ایجاد رکھیں گے
پرانی ہو گئی دنیا اسے مسمار کرنا ہے
نئی تعمیر کی خاطر نئی بنیاد رکھیں گے
غزل
ہمیں کچھ اور جینا ہے تو دل کو شاد رکھیں گے
عبید صدیقی