EN हिंदी
ہمیں خبر بھی نہیں یار کھینچتا ہے کوئی | شیح شیری
hamein KHabar bhi nahin yar khinchta hai koi

غزل

ہمیں خبر بھی نہیں یار کھینچتا ہے کوئی

شاہد کمال

;

ہمیں خبر بھی نہیں یار کھینچتا ہے کوئی
ہمارے بیچ میں دیوار کھینچتا ہے کوئی

یہ کیسا دشت تحیر ہے یاں سے کوچ کرو
ہمارے پاؤں سے رفتار کھینچتا ہے کوئی

ہے چاک چاک ہمارے لہو کا پیراہن
ہماری روح سے جھنکار کھینچتا ہے کوئی

میں چل رہا ہوں مسلسل بنا توقف کے
مجھے بہ صورت پرکار کھینچتا ہے کوئی

یہاں تو مال غنیمت سمجھ رہے ہیں سبھی
قبا بچاؤ تو دستار کھینچتا ہے کوئی

اسے سکھاؤ کہ تہذیب گفتگو کیا ہے
ذرا سی بات پہ تلوار کھینچتا ہے کوئی

ہے مرا نام بھی اس محضر شہادت میں
مجھے بھی لشکر انکار کھینچتا ہے کوئی

مناف جذب دروں میں ہوں ان دنوں شاہدؔ
مجھے اک عکس پر اسرار کھینچتا ہے کوئی