ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں
نہ تو کوئی آدمی جانے ہے نہ حساب میں نہ کتاب میں
نہ تو علم اپنے میں ہے یہاں کہ خدا نے بھیجا ہے کس لیے
اسی کو جو کہتے ہیں زندگی سو تو جسم کے ہے عذاب میں
یہی شکل ہے جسے دیکھو ہو یہی وضع ہے جسے گھورو ہو
جسے جان کہتے ہیں آدمی اسے دیکھا عالم خواب میں
میں خلاف تم سے نہیں کہا اسے مانو یا کہ نہ مانو تم
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا میں کہ ملا ہوں اس کی جناب میں
نہ سنوگے سوزؔ کی گفتگو جو پھروگے ڈھونڈنے کوبکو
یہ نشہ ہے اس کے بیان میں کہ نہیں نشہ ہے شراب میں
غزل
ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں
میر سوز