ہمیں کہتی ہے دنیا زخم دل زخم جگر والے
ذرا تم بھی تو دیکھو ہم کو تم بھی ہو نظر والے
نظر آئیں گے نقش پا جہاں اس فتنہ گر والے
چلیں گے سر کے بل رستہ وہاں کے رہ گزر والے
ستم ایجادیوں کی شان میں بٹا نہ آ جائے
نہ کرنا بھول کر تم جور چرخ کینہ ور والے
جفا و جور گلچیں سے چمن ماتم کدہ سا ہے
پھڑکتے ہیں قفس کی طرح آزادی میں پر والے
الف سے تا بہ یا للہ افسانہ سنا دیجے
جناب موسئ عمراں وہی حیرت نگر والے
ہمیں معلوم ہے ہم مانتے ہیں ہم نے سیکھا ہے
دل آزردہ ہوا کرتے ہیں از حد چشم تر والے
کٹانے کو گلا آٹھوں پہر موجود رہتے ہیں
وہ دل والے جگر والے سہی ہم بھی ہیں سر والے
تماشا دیکھ کر دنیا کا سائلؔ کو ہوئی حیرت
کہ تکتے رہ گئے بد گوہروں کا منہ گہر والے

غزل
ہمیں کہتی ہے دنیا زخم دل زخم جگر والے
سائل دہلوی