ہمیں چار سمت کی دوڑ میں وہی گرد باد صدا ملا
بنے اپنی ذات میں گونج ہم نہ خودی ملی نہ خدا ملا
کبھی شہر شہر خرد پھری کبھی دشت دشت جنوں گیا
مری زندگی مجھے کچھ بتا تجھے کیا ملا مجھے کیا ملا
اسے ڈھونڈتے تھے جو کو بہ کو وہ سفر کی گرد میں اٹ گئے
کسے راہ نکہت گل ملی کسے نقش پائے صبا ملا
سر سطح ریگ لکھی ہوئی کوئی داستان جنوں ملی
سر لوح آب بنا ہوا کوئی نقش کار وفا ملا
کسے حال اپنا سنائیں ہم کسے شوق اپنا بتائیں ہم
کوئی ہم سفر ہے زمین کا کوئی ہم رکاب ہوا ملا
کبھی کوئی آنکھ تو بھیگتی کبھی کوئی دل تو پسیجتا
مرے شوق تازہ نوائی کو یہ نوا گری کا صلا ملا
مری بند آنکھ پہ وا ہوئے کئی در طلسم خیال کے
مجھے نیند آئے تو کس طرح مجھے خواب عہد فزا ملا
میں شجر ہوں موسم درد کا یہی رت ہے میرے لیے سدا
کبھی شاخ شاخ ہری ملی کبھی برگ برگ جدا ملا
یہی روشنی مرے ہاتھ ہے یہی تازگی مرے ساتھ ہے
کبھی کوئی داغ چمک اٹھا کبھی کوئی زخم نیا ملا
میں چلا تھا شہر کی راہ سے مگر اپنی ذات میں گم ہوا
مجھے باقرؔ اپنی تلاش تھی مجھے آج اپنا پتا ملا
غزل
ہمیں چار سمت کی دوڑ میں وہی گرد باد صدا ملا
سجاد باقر رضوی