EN हिंदी
ہمیں بھی کیوں نہ ہو دعویٰ کہ ہم بھی یکتا ہیں | شیح شیری
hamein bhi kyun na ho dawa ki hum bhi yakta hain

غزل

ہمیں بھی کیوں نہ ہو دعویٰ کہ ہم بھی یکتا ہیں

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

ہمیں بھی کیوں نہ ہو دعویٰ کہ ہم بھی یکتا ہیں
ہمارے خون کے پیاسے جب اہل دنیا ہیں

بس اس خطا پہ کہ پہچانتے ہیں کیوں سب کو
یہ صاحبان نظر شہر بھر میں رسوا ہیں

ہم اہل دل کا زمانہ ہی ساتھ دے نہ سکا
ہمیں بھی دکھ ہے کہ ہم اس سفر میں تنہا ہیں

ہمیں نہ جانو فقط ڈوبتا ہوا لمحہ
ہمیں یقیں ہے کہ ہم ہی نشان فردا ہیں

مٹا سکے گی ہمیں کیا کوئی سیہ بختی
ہم اپنا جسم بھی ہیں ہم ہی اپنا سایا ہیں

ہمیں پکار نہ اب اے عروس‌ شبنم و گل
ہمیں نہ ڈھونڈھ کہ ہم بے کنار صحرا ہیں

صدائے ساز نہیں ہم نوائے غم ہی سہی
ہمیں سنو کہ ہمیں اعتبار نغمہ ہیں