EN हिंदी
ہماری ذات میں بستے سبھی ہیں | شیح شیری
hamari zat mein baste sabhi hain

غزل

ہماری ذات میں بستے سبھی ہیں

عبید حارث

;

ہماری ذات میں بستے سبھی ہیں
ہم اچھے ہیں تو پھر اچھے سبھی ہیں

یقیں کیسے کریں وعدے پہ تیرے
یہی وعدہ ہے جو کرتے سبھی ہیں

دکھائی کیوں نہیں دیتا کسی کو
خدا کی کھوج میں نکلے سبھی ہیں

مرے اندر فقط قطرہ نہیں ہے
سمندر جھیل اور جھرنے سبھی ہیں

زمیں پر آئے گا وہ آسماں سے
نظارہ دیکھنے ٹھہرے سبھی ہیں

چلی تھی اک ہوا کچھ دیر پہلے
اسی کے خوف سے سہمے سبھی ہیں

سبق لیتے نہیں ہم کیوں کسی سے
ہمارے سامنے قصے سبھی ہیں