EN हिंदी
ہماری اس سے جو صورت ہوئی صفائی کی | شیح شیری
hamari us se jo surat hui safai ki

غزل

ہماری اس سے جو صورت ہوئی صفائی کی

عاشق اکبرآبادی

;

ہماری اس سے جو صورت ہوئی صفائی کی
ہجوم غم نے عدو پر بڑی چڑھائی کی

فقیر مست ترے حال وصل کیا جانیں
کہ اوڑھے بیٹھے ہیں کملی شب جدائی کی

گدائے کوچۂ جاناں ہوں مرتبہ ہے بڑا
کہ میرے نام ہے جاگیر بے نوائی کی

ہمیں تو عالم ہستی میں اک نکمے ہیں
تمہیں میں آ گئیں سب خوبیاں خدائی کی

ملے نہ کیوں تمہیں شاہوں کا مرتبہ عاشقؔ
بہت دنوں در خواجہ پہ ہے گدائی کی