ہماری تباہی میں کچھ اس کا احساں بھی ہے
جو درد ان دنوں وجہ آرائش جاں بھی ہے
یہی فصل کلیاں جھلستی ہیں جس فصل میں
سنا ہے نیا نام اس کا بہاراں بھی ہے
بکھیرا گیا ہے لہو ان کے اعزاز میں
بہاروں میں خوشبوئے خون شہیداں بھی ہے
ان آنکھوں کی تقدیر اب اشک ریزی ہوئی
اور اشکوں کی تقدیر میں رنگ مرجاں بھی ہے
اگر رات کٹ جائے تو خوش نصیبی کہو
فضاؤں میں اندیشۂ باد و باراں بھی ہے
غزل
ہماری تباہی میں کچھ اس کا احساں بھی ہے
ساقی فاروقی