EN हिंदी
ہماری تباہی میں کچھ اس کا احساں بھی ہے | شیح شیری
hamari tabahi mein kuchh us ka ehsan bhi hai

غزل

ہماری تباہی میں کچھ اس کا احساں بھی ہے

ساقی فاروقی

;

ہماری تباہی میں کچھ اس کا احساں بھی ہے
جو درد ان دنوں وجہ آرائش جاں بھی ہے

یہی فصل کلیاں جھلستی ہیں جس فصل میں
سنا ہے نیا نام اس کا بہاراں بھی ہے

بکھیرا گیا ہے لہو ان کے اعزاز میں
بہاروں میں خوشبوئے خون شہیداں بھی ہے

ان آنکھوں کی تقدیر اب اشک ریزی ہوئی
اور اشکوں کی تقدیر میں رنگ مرجاں بھی ہے

اگر رات کٹ جائے تو خوش نصیبی کہو
فضاؤں میں اندیشۂ باد و باراں بھی ہے