EN हिंदी
ہماری سمت ہیں سارے ڈھلاؤ | شیح شیری
hamari samt hain sare Dhalaw

غزل

ہماری سمت ہیں سارے ڈھلاؤ

احسن علی خاں

;

ہماری سمت ہیں سارے ڈھلاؤ
پڑا ہر سیل کا ہم پر دباؤ

ملے ہیں سادہ لوحی کی سزا میں
لٹیرے ناخدا کاغذ کی ناؤ

وہاں بھی وحشتیں تنہائیاں ہیں
ذرا صحرا سے واپس گھر تو جاؤ

نہ جانے کب یہ آگ آ جائے باہر
کہ سینوں میں دہکتے ہیں الاؤ

ہوا کا جس طرف رخ ہو گیا ہے
اسی جانب ہے شاخوں کا جھکاؤ

زمیں کیا آسماں بھی منتظر ہے
حصار ذات سے باہر تو آؤ

کہیں گے لوگ احسنؔ تم کو پاگل
محبت ہے تو یہ تہمت اٹھاؤ