EN हिंदी
ہماری محفلوں میں بے حجاب آنے سے کیا ہوگا | شیح شیری
hamari mahfilon mein be-hijab aane se kya hoga

غزل

ہماری محفلوں میں بے حجاب آنے سے کیا ہوگا

عرشی رامپوری

;

ہماری محفلوں میں بے حجاب آنے سے کیا ہوگا
نہیں جب ہوش میں ہم جلوہ فرمانے سے کیا ہوگا

جنوں کے ساتھ تھوڑی سی فضائے لا مکاں بھی دے
مری وحشت کو اس دنیا کے ویرانے سے کیا ہوگا

ہے مر جانا کلید فتح سمجھایا تھا رندوں نے
مگر ناصح یہ کہتا ہے کہ مر جانے سے کیا ہوگا

زہے قسمت اگر حضرت خود اپنا جائزہ بھی لیں
ہماری زندگی پر تیر برسانے سے کیا ہوگا

اگر ہمدرد بنتے ہو تو زنجیریں ذرا کھولو
مری پا بستگی پر یوں ہی غم کھانے سے کیا ہوگا

در پیر مغاں چھوڑیں یہ ہم سے ہو نہیں سکتا
کوئی واعظ سے کہہ دو تیرے بہکانے سے کیا ہوگا

جسے دیکھو وہ ہے سرمست صہبائے خرد یکسر
خداوندا! یہاں اک تیرے دیوانے سے کیا ہوگا

نہیں قلب و جگر میں خون کا قطرہ کوئی باقی
عزیزو اب ہمارے ہوش میں آنے سے کیا ہوگا

دکھوں کو کھو نہیں سکتے اگر اہل خرد عرشیؔ
تو خالی سینۂ افلاک برمانے سے کیا ہوگا