EN हिंदी
ہماری خواہشوں میں سرگرانی بھی کہاں تھی | شیح شیری
hamari KHwahishon mein sargirani bhi kahan thi

غزل

ہماری خواہشوں میں سرگرانی بھی کہاں تھی

حامد ظہور

;

ہماری خواہشوں میں سرگرانی بھی کہاں تھی
اور اس کو زندگی ہم سے نبھانی بھی کہاں تھی

ہوا لے آئی تھی اس شہر میں اے دوست ورنہ
ابھی پیش نظر نقل مکانی بھی کہاں تھی

تمہارا نقش ان آنکھوں سے دھلتا بھی تو کیسے
کہ دریا میں وہ پہلی سی روانی بھی کہاں تھی

وہ اپنے زعم میں بچھڑا مگر میں سوچتا ہوں
ہمارے درمیاں کوئی کہانی بھی کہاں تھی

بہت جلدی چلے آئے ہیں ہم کار جہاں سے
وگرنہ زندگی اتنی پرانی بھی کہاں تھی