ہماری اس وفا پر بھی دغا کی
قسم کھائی تھی او کافر خدا کی
وہ مشت استخواں ہوں اے سگ یار
اگر کھائے سعادت ہے ہما کی
لب شیریں کا جو بوسہ لیا تھا
مری اس کی شکر رنجی رہا کی
وفا سے میں نے بھی اب ہاتھ اٹھایا
قسم ہے مجھ کو اپنے بے وفا کی
ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہے جنگ
ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی
فقیروں کے قدم لیتے ہیں سلطاں
یہ ہے تاثیر نقش بوریا کی
تصور بندھ گیا جب اس مژہ کا
تو پہروں دل پہ برچھی سی لگا کی
خدا یوں جس کو چاہے دے سعادت
وگرنہ سگ میں خصلت ہے ہما کی
نہیں اٹھتا ہے سر سجدے سے میرا
مگر ہے سجدہ گاہ اس خاک پا کی
کہوں جب میں کہ بے تیرے ہوں مرتا
تو کہتا ہے وہ بت مرضی خدا کی
نہ آیا منتوں سے یار جس دم
تو پھر کیا کیا اجل کے التجا کی
غزل
ہماری اس وفا پر بھی دغا کی
خواجہ محمد وزیر لکھنوی