ہماری بات کا الٹا اثر نہ پڑ جائے
یہ دل کا بوجھ کہیں جان پر نہ پڑ جائے
تمام رات سلگتا ہوں اور سوچتا ہوں
کسی چراغ کی مجھ پر نظر نہ پڑ جائے
اسی خیال سے زخموں کی رونمائی نہ کی
کہ امتحاں میں کہیں چارہ گر نہ پڑ جائے
پھر اس کے بعد کہاں جائیں گے یہ سایہ پسند
ادھر کی دھوپ کسی دن ادھر نہ پڑ جائے
لگی تو ہے یہ برابر مرے تعاقب میں
گلے ہوا کے کہیں یہ سفر نہ پڑ جائے
یہ دشت عشق ہے غائرؔ ذرا خیال رہے
تمہارا پاؤں کسی دن ادھر نہ پڑ جائے

غزل
ہماری بات کا الٹا اثر نہ پڑ جائے
کاشف حسین غائر