EN हिंदी
ہماری آنکھیں بھی صاحب عجیب کتنی ہیں | شیح شیری
hamari aankhen bhi sahib ajib kitni hain

غزل

ہماری آنکھیں بھی صاحب عجیب کتنی ہیں

احمد عطا

;

ہماری آنکھیں بھی صاحب عجیب کتنی ہیں
کہ دل جو روئے تو کم بخت ہنسنے لگتی ہیں

تمہارے شہر سے چلیے کہ تنگ دستی نے
تمہارے شہر کی گلیاں بھی تنگ کر دی ہیں

یہ ہم ہیں بے ہنراں دیکھیے ہنر مندی
جو کوئی کام کریں ہم تو پوریں جلتی ہیں

نہ اس کا وصل ملا اور نہ روزگار یہاں
سو پہلے ہجر زدہ تھے اور اب کے ہجرتی ہیں

تو شاہ زادی کو لائیں وہ محو خواب ہے کیا
ہمیں یقیں نہیں پریاں بھی جھوٹ بولتی ہیں