ہماری آنکھ نے دیکھے ہیں ایسے منظر بھی
گلوں کی شاخ سے لٹکے ہوئے تھے خنجر بھی
یہاں وہاں کے اندھیروں کا کیا کریں ماتم
کہ اس سے بڑھ کے اندھیرے ہیں دل کے اندر بھی
ابھی سے ہاتھ مہکنے لگے ہیں کیوں میرے
ابھی تو دیکھا نہیں ہے بدن کو چھو کر بھی
کسے تلاش کریں اب نگر نگر لوگو
جواب دیتے نہیں ہیں بھرے ہوئے گھر بھی
ہماری تشنہ لبی پر نہ کوئی بوند گری
گھٹائیں جا چکیں چاروں طرف برس کر بھی
یہ خون رنگ چمن میں بدل بھی سکتا ہے
ذرا ٹھہر کہ بدل جائیں گے یہ منظر بھی
علیؔ ابھی تو بہت سی ہیں ان کہی باتیں
کہ ناتمام غزل ہے تمام ہو کر بھی
غزل
ہماری آنکھ نے دیکھے ہیں ایسے منظر بھی
علی احمد جلیلی