ہمارے ذہن میں یہ بات بھی نہیں آئی
کہ تیری یاد ہمیں رات بھی نہیں آئی
بچھڑتے وقت جو گرجے وہ کیسے بادل تھے
یہ کیسا ہجر کہ برسات بھی نہیں آئی
تجھے نہ پا سکے ہم اس کا اک سبب یہ ہے
پلٹ کے گردش حالات بھی نہیں آئی
ہوا یوں ہاتھ سے بازی نکل گئی اک روز
ہمارے حصے میں پھر مات بھی نہیں آئی
الجھ کے رہ گئے کیا ہم بھی کار دنیا میں
کہ نوبت سفر ذات بھی نہیں آئی
غزل
ہمارے ذہن میں یہ بات بھی نہیں آئی
شہرام سرمدی