ہمارے سر سے وہ طوفاں کہیں گزر گئے ہیں
چڑھے ہوئے تھے جو دریا سبھی اتر گئے ہیں
رہے نہیں ہیں کبھی ایک حال پر قائم
سمٹ گئے ہیں کبھی اور کبھی بکھر گئے ہیں
اصول ہے کہ خلا یونہی رہ نہیں سکتا
ہوئے ہیں خود سے جو خالی سو تجھ سے بھر گئے ہیں
رکے بھی ہیں تو دوبارہ روانگی کے لیے
چلے بھی ہیں تو کہیں راہ میں ٹھہر گئے ہیں
تمہارے عہد تغافل میں جی رہے ہیں ابھی
ہوا ہے کچھ تمہیں حاصل نہ ہم ہی مر گئے ہیں
نکل پڑے تو پھر اپنا سراغ مل نہ سکا
تمہارے پاس ہی پہنچے نہ اپنے گھر گئے ہیں
وہی ہے دائرۂ خواب ابتدائےسفر
اسی قدر ہوئے واپس بھی جس قدر گئے ہیں
اسی کمی کا ہے احساس اور حیرانی
ہیں اور تو سبھی موجود ہم کدھر گئے ہیں
ظفرؔ ہماری محبت کا سلسلہ ہے عجیب
جہاں چھپا نہیں پائے وہاں مکر گئے ہیں

غزل
ہمارے سر سے وہ طوفاں کہیں گزر گئے ہیں
ظفر اقبال