EN हिंदी
ہمارے صبر کا اک امتحان باقی ہے | شیح شیری
hamare sabr ka ek imtihan baqi hai

غزل

ہمارے صبر کا اک امتحان باقی ہے

چترانش کھرے

;

ہمارے صبر کا اک امتحان باقی ہے
اسی لئے تو ابھی تک یہ جان باقی ہے

وہ نفرتوں کی امارت بھی گر گئی دیکھو
محبتوں کا یہ کچا مکان باقی ہے

مرا اصول ہے غزلوں میں سچ بیاں کرنا
میں مر گیا تو مرا خاندان باقی ہے

میں چاند پر ہوں مگر مطمئن نہیں ہوں میں
مرے پروں میں ابھی بھی اڑان باقی ہے

مٹا دو جسم سے میری نشانیاں لیکن
تمہاری روح پہ میرا نشان باقی ہے

تمہیں تو سچ کو اگلنے کی تھی بڑی عادت
تمہارے منہ میں ابھی تک زبان باقی ہے

ہماری موت کو برسوں گزر گئے لیکن
بدن کا خاک سے اب تک ملان باقی ہے