EN हिंदी
ہمارے سانحے ہم کو سنا رہے کیوں ہو | شیح شیری
hamare sanehe hum ko suna rahe kyun ho

غزل

ہمارے سانحے ہم کو سنا رہے کیوں ہو

سیما غزل

;

ہمارے سانحے ہم کو سنا رہے کیوں ہو
تم اتنا بوجھ بھی دل پر اٹھا رہے کیوں ہو

تمہاری چھاؤں میں بیٹھے اٹھا دیا تم نے
پھر اب پکار کے واپس بلا رہے کیوں ہو

جو بات سب سے چھپائی تھی عمر بھر ہم نے
وہ بات سارے جہاں کو بتا رہے کیوں ہو

جب ایک پل بھی گزرنا محال ہوتا ہے
پھر اتنی دیر بھی ہم سے جدا رہے کیوں ہو

تمہاری آنکھ میں آنسو دکھائی دیتے ہیں
تم اتنی زور سے ہنس کے چھپا رہے کیوں ہو

جو کر لیا ہے جدائی کا فیصلہ تم نے
تو یہ فضول بہانے بنا رہے کیوں ہو

نہ جانے کس لیے آنکھوں میں آ گئے آنسو
ذرا سی بات کو اتنا بڑھا رہے کیوں ہو