ہمارے سامنے بیگانہ وار آؤ نہیں
نیاز اہل محبت کو آزماؤ نہیں
ہمیں بھی اپنی تباہی پہ رنج ہوتا ہے
ہمارے حال پریشاں پہ مسکراؤ نہیں
جو تار ٹوٹ گئے ہیں وہ جڑ نہیں سکتے
کرم کی آس نہ دو بات کو بڑھاؤ نہیں
دیے خلوص و محبت کے بجھتے جاتے ہیں
گراں نہ ہو تو ہمیں اس قدر ستاؤ نہیں
دل و نگاہ کو کب تک کوئی بچھائے رہے
یہ دیکھ کر کہ ادھر سے کوئی جھکاؤ نہیں
یہ اور بات ہے کانٹوں میں جی بہل جائے
نہیں کہ لالہ و گل سے مجھے لگاؤ نہیں
غزل
ہمارے سامنے بیگانہ وار آؤ نہیں
فرید جاوید