ہمارے قول و عمل میں تضاد کتنا ہے
مگر یہ دل ہے کہ خوش اعتقاد کتنا ہے
کہ جیسے رنگ ہی لے آئے گا لہو اپنا
وفا پہ اپنی ہمیں اعتماد کتنا ہے
یہ جانتا ہے کہ وعدہ شکن ہے وہ پھر بھی
دل اس کے وعدۂ فردا پہ شاد کتنا ہے
وہ جس نے مجھ کو فراموش کر دیا یکسر
وہ شخص مجھ کو مگر اب بھی یاد کتنا ہے
ہے اب تو سارے مراسم کا انحصار اس پر
کسی کی ذات سے ہم کو مفاد کتنا ہے
ہر ایک سوچ ہے آلودۂ ہوس یارو
رگوں میں قطرۂ خوں کا فساد کتنا ہے
ہے یوں تو میرے رقیبوں میں اختلاف بہت
مرے خلاف مگر اتحاد کتنا ہے

غزل
ہمارے قول و عمل میں تضاد کتنا ہے
مرتضیٰ برلاس