ہمارے پاس تو آؤ بڑا اندھیرا ہے
کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ بڑا اندھیرا ہے
اداس کر گئے بے ساختہ لطیفے بھی
اب آنسوؤں سے رلاؤ بڑا اندھیرا ہے
کوئی ستارہ نہیں پتھروں کی پلکوں پر
کوئی چراغ جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
حقیقتوں میں زمانہ بہت گزار چکے
کوئی کہانی سناؤ بڑا اندھیرا ہے
کتابیں کیسی اٹھا لائے میکدے والے
غزل کے جام اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
غزل میں جس کی ہمیشہ چراغ جلتے ہیں
اسے کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ چاندنی کی بشارت ہے حرف آخر تک
بشیرؔ بدر کو لاؤ بڑا اندھیرا ہے
غزل
ہمارے پاس تو آؤ بڑا اندھیرا ہے
بشیر بدر