ہمارے پاس تھا جو کچھ لٹا کے بیٹھ رہے
دیار دل میں قیامت اٹھا کے بیٹھ رہے
وہاں جہاں پر اندھیروں کا کارواں اترا
کسی امید پہ شمعیں جلا کے بیٹھ رہے
تمہارے ہجر میں جو کچھ گزر گئی گزری
تمہارے وصل میں ہم گھر جلا کے بیٹھ رہے
کہاں کے دار و رسن اور کیا شہید وفا
یہ کاروبار بھی کل پھر اٹھا کے بیٹھ رہے
خبر نہ تھی کہ زماں آشکار تھے جو کبھی
وہ پردہ دار تو چلن گرا کے بیٹھ رہے
کڑکتی دھوپ میں دشت سفر سے گھبرا کر
فصیل شہر کے سائے میں آ کے بیٹھ رہے
زمانہ کچھ تو کہے ان سے جو بہ حیلۂ دل
کسی کی بزم سے ہم کو اٹھا کے بیٹھ رہے
گری ہے گھر کی کڑی پر کڑی تو گھر والے
غبار شرم میں چہرے چھپا کے بیٹھ رہے
وہ طفل مکتب رسم وفا ہمیں تو نہ تھے
جو اپنی یادوں کا میلہ لگا کے بیٹھ رہے
ہے بازگشت ہی شاید مری فغاں کا جواب
''خدا'' تو اپنی ہی قبروں پہ جا کے بیٹھ رہے
وہ نا خدا تھے زمانے میں معتبر جو سدا
سمندروں میں سفینے بہا کے بیٹھ رہے

غزل
ہمارے پاس تھا جو کچھ لٹا کے بیٹھ رہے
شفقت تنویر مرزا