ہمارے پاس نہ دل ہے نہ دل کی بات کوئی
گزر رہی ہے ہمارے سروں سے رات کوئی
اکیلے ملتے ہیں صحرا ہو یا کہ دریا ہو
کسی کے ساتھ نہیں ہم نہ اپنے ساتھ کوئی
ہمارے چہرے پہ سو رنگ کی بہاریں ہیں
کہ جیسے قلب میں زندہ ہے کائنات کوئی
اب اس کے بعد ہوائیں ہی اس کا مدت ہیں
شجر سے ٹوٹ رہا ہے خزاں میں پات کوئی
تمام فتنۂ دوراں مجھی سے ابھرے ہیں
کہاں ہے زیست میں مجھ سے علیحدہ ذات کوئی
ہزار بار گرائی ہیں اس کی دیواریں
کہ جیسے دل بھی نہیں دل ہے سومنات کوئی
عبث میں کاٹ رہا ہوں یہ زندگی مامونؔ
نہیں ہے جیت کوئی اس میں اور نہ مات کوئی
غزل
ہمارے پاس نہ دل ہے نہ دل کی بات کوئی
خلیل مامون