ہمارے خواب کچھ انعکاس لگتا ہے
یہ آدمی تو ہمیں روشناس لگتا ہے
گزارشات بھی باعث تھیں برہمی کا کبھی
اب اس کا حکم بھی اک التماس لگتا ہے
جو اپنے نام سے تحریر اس نے بھیجی ہے
ہمارے خط کا کوئی اقتباس لگتا ہے
بلا سبب یہ کرے بد گمان کیوں آخر
درست! ناصح! قیافہ شناس لگتا ہے
وہ ہم سے ترک تعلق پہ اب ہے آمادہ
ہمیں تو آپ کا یہ اک قیاس لگتا ہے
خدا کرے کہ ہمیں وہ دعا نہ کوئی دے
ہمیں تو کوسنا ہی اس کا راس لگتا ہے
تراشیں پیرہن اب کچھ نئی زمینوں میں
دریدہ شعر کا پچھلا لباس لگتا ہے
یہ دور کیسا ہے جس شخص سے بھی ملنا ہو
پریشاں حال شکستہ اداس لگتا ہے
بتائیں آپ کو کیا ہے متینؔ کی پہچان
سراپا درد ہے تصویر یاس لگتا ہے
غزل
ہمارے خواب کچھ انعکاس لگتا ہے
سید فضل المتین