ہمارے جسموں میں دن ہی کا زہر کیا کم تھا
برہنہ رات بھی آئی تو سبز موسم تھا
ہلاکتوں کا صلہ قاتلوں سے کیا ملتا
کہ قطرہ قطرہ لہو کا نظر میں شبنم تھا
بکھرنے ٹوٹنے کا سلسلہ تھا راہوں میں
تمام خوابوں کا تعبیر نامہ ماتم تھا
گراں ہے مٹی کا ٹوٹا ہوا پیالہ اب
یہی وہ ہاتھ ہیں کل جن میں ساغر جم تھا
گھسٹ رہے تھے زمیں پر ہزارہا انساں
امید و بیم کا ہر اک چراغ مدھم تھا
میں زندگی سے شناسا ہوں اس قدر عشرتؔ
نگاہ اٹھتی تھی جس سمت ہو کا عالم تھا
غزل
ہمارے جسموں میں دن ہی کا زہر کیا کم تھا
عشرت قادری