ہمارے جسم نے جس جسم کو بلایا ہے
وہ روح بن کے کھڑا دور مسکرایا ہے
پتا چلا کبھی شہر انا وہیں پر تھا
جہاں کھنڈر پہ نیا شہر اب بسایا ہے
حیات ناؤ ہے کاغذ کی بارہا جس پر
اڑایا آندھیوں نے سیل نے بہایا ہے
جس آئنہ پہ دھندلکوں نے کھینچ دی چلمن
اسی نے عکس ہمارا ہمیں دکھایا ہے
کوئی کھڑا ہے در دل پہ منتظر کب سے
مہکتی سانسوں نے آ کر ہمیں بتایا ہے

غزل
ہمارے جسم نے جس جسم کو بلایا ہے
ستیہ نند جاوا