ہمارے جسم کے اندر بھی کوئی رہتا ہے
مگر یہ کیسے کہیں ہم کہ وہ فرشتہ ہے
عجیب شخص ہے وہ پیاس کے جزیروں کا
پہن کے دھوپ سدا مقتلوں میں رہتا ہے
نظر ہے دن کے چمکتے لباس پر سب کی
قبائے شام کے پیوند کون گنتا ہے
ہماری عریاں ہتھیلی پہ اب بھی شام و سحر
یہ کون ہے جو گہر آنسوؤں کے رکھتا ہے
بچھڑ گئے تو اکیلے رہیں گے ہم شاربؔ
کہ سارسوں سا ہمارا تمہارا رشتہ ہے
غزل
ہمارے جسم کے اندر بھی کوئی رہتا ہے
شارب مورانوی