ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے
تو لب پہ کتنے ہی پیاسوں کا نام آیا ہے
کہاں کا نور یہاں رات ہو گئی گہری
مرا چراغ اندھیروں کے کام آیا ہے
یہ کیا غضب ہے جو کل تک ستم رسیدہ تھے
ستم گروں میں اب ان کا بھی نام آیا ہے
تمام عمر کٹی اس کی جستجو کرتے
بڑے دنوں میں یہ طرز کلام آیا ہے
بڑھوں تو راکھ بنوں مڑ چلوں تو پتھرا جاؤں
سفر میں شوق کے نازک مقام آیا ہے
خبر بھی ہے مرے گلشن کے لالہ و گل کو
مرا لہو بھی بہاروں کے کام آیا ہے
وہ سرپھرے جو نگہ داریٔ جنوں میں رہے
سرورؔ ان میں ہمارا بھی نام آیا ہے
غزل
ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے
آل احمد سرور