EN हिंदी
ہمارے دوستوں میں کوئی دشمن ہو بھی سکتا ہے | شیح شیری
hamare doston mein koi dushman ho bhi sakta hai

غزل

ہمارے دوستوں میں کوئی دشمن ہو بھی سکتا ہے

حسیب سوز

;

ہمارے دوستوں میں کوئی دشمن ہو بھی سکتا ہے
یہ انگریزی دوائیں ہیں ری ایکشن ہو بھی سکتا ہے

کسی ماتھے پہ ہر دم ایک ہی لیبل نہیں رہتا
بھکاری چند ہفتوں میں مہاجن ہو بھی سکتا ہے

سیاست نقلی نوٹوں کی طرح دھوکے سے چلتی ہے
جسے رہبر سمجھتے ہو وہ رہزن ہو بھی سکتا ہے

مرے بچوں کہاں تک باپ کے کاندھوں پہ بیٹھو گے
کسی دن فیل اس گاڑی کا انجن ہو بھی سکتا ہے

کبھی چشمہ ہٹا کر دیکھ آنکھوں سے تعصب کا
ترے دامن سے اجلا میرا دامن ہو بھی سکتا ہے