ہمارے دوستوں میں کوئی دشمن ہو بھی سکتا ہے
یہ انگریزی دوائیں ہیں ری ایکشن ہو بھی سکتا ہے
کسی ماتھے پہ ہر دم ایک ہی لیبل نہیں رہتا
بھکاری چند ہفتوں میں مہاجن ہو بھی سکتا ہے
سیاست نقلی نوٹوں کی طرح دھوکے سے چلتی ہے
جسے رہبر سمجھتے ہو وہ رہزن ہو بھی سکتا ہے
مرے بچوں کہاں تک باپ کے کاندھوں پہ بیٹھو گے
کسی دن فیل اس گاڑی کا انجن ہو بھی سکتا ہے
کبھی چشمہ ہٹا کر دیکھ آنکھوں سے تعصب کا
ترے دامن سے اجلا میرا دامن ہو بھی سکتا ہے
غزل
ہمارے دوستوں میں کوئی دشمن ہو بھی سکتا ہے
حسیب سوز