ہمارے دل میں مچلے گی کسی کی آرزو کب تک
جنون عشق میں بھٹکیں گے ہم یوں کو بہ کو کب تک
یہ کیا منزل نہ آئے گی ہمارے رو بہ رو کب تک
رہیں گے دشت غربت میں اسیر جستجو کب تک
غم ہستی کا بھی کچھ تو مداوا ڈھونڈھنا ہوگا
غم ہستی مٹائیں گے بھلا جام و سبو کب تک
بہاروں کی ہے آمد کا جنہیں دعویٰ وہ بتلائیں
چمن میں آئے گی آخر بہار رنگ و بو کب تک
بلا نوشوں کو آتا ہے طریق زندگی ناصح
جناب شیخ سیکھیں گے طریق گفتگو کب تک
کبھی تو آرزو بر آئے گی جانباز اپنی بھی
بالآخر اپنے اشکوں سے کریں گے ہم وضو کب تک

غزل
ہمارے دل میں مچلے گی کسی کی آرزو کب تک
ستیہ پال جانباز