ہمارے درمیاں عہد شب مہتاب زندہ ہے
ہوا چپکے سے کہتی ہے ابھی اک خواب زندہ ہے
یہ کس کی نرم خوشبو ہے مری شب کی حویلی میں
یہ کیسا رقص مستی اے دل بے تاب زندہ ہے
کہاں وہ سانولی شامیں کہاں وہ ریشمی باتیں
مگر اک لمس حیراں کا ابھی زرناب زندہ ہے
ابھی تک پانیوں میں سرمئی سائے اترتے ہیں
ابھی تک دھڑکنوں میں درد کی مضراب زندہ ہے
صراط عشق ہے اور ہجر کی تنہا مسافت ہے
وہی ہے تشنگی پھر بھی فریب آب زندہ ہے
غزل
ہمارے درمیاں عہد شب مہتاب زندہ ہے
نوشی گیلانی