ہمارے درد کی جانب اشارا کرتی ہیں
فقط کہانیاں ہم کو گوارا کرتی ہیں
یہ سادگی یہ نجابت جو عیب ہیں میرے
سنا تھا ان پہ تو نسلیں گزارا کرتی ہیں
خود اپنے سامنے ڈٹ جاتی ہیں جو شخصیتیں
وہ جیتتی ہیں کسی سے نہ ہارا کرتی ہیں
شریف لوگ کہ جیسے سکوت آب رواں
کچھ ایک موجیں مگر سر ابھارا کرتی ہیں
بدل گئے ہیں ارادے تو حسرتوں میں مگر
کچھ آرزوئیں ابھی استخارا کرتی ہیں
ستارے ان کی چمک میں سمانا چاہتے ہیں
مگر وہ آنکھیں فلک کو ستارا کرتی ہیں
بجا ہیں اپنے مسائل بجا ہیں اپنی حدود
کہیں کناروں سے لہریں کنارا کرتی ہیں
زبان شہر تو پیوند خاک جہل ہوئی
مگر وہ محفلیں اب بھی پکارا کرتی ہیں
غزل
ہمارے درد کی جانب اشارا کرتی ہیں
شہپر رسول