EN हिंदी
ہمارے چہروں میں پنہاں ہیں زاویہ کیا کیا | شیح شیری
hamare chehron mein pinhan hain zawiye kya kya

غزل

ہمارے چہروں میں پنہاں ہیں زاویہ کیا کیا

عامر نظر

;

ہمارے چہروں میں پنہاں ہیں زاویہ کیا کیا
دبی زبان میں کہتے ہیں آئنے کیا کیا

جبین خاک تجھے میں نے خوں سے سینچا تھا
مگر یہ تو نے دکھائے ہیں دائرے کیا کیا

ہمارے سر کی بلندی پہ وقت حیراں ہے
چکھے ہیں نوک سناں نے بھی ذائقے کیا کیا

تڑپ کے روح زمیں بوس ہو گئی ورنہ
بدن چٹان پہ اٹھتے تھے زلزلے کیا کیا

خرد قرار جو پائے تو ہم بھی دیکھیں گے
ہیں انتشار کے دامن میں مسئلے کیا کیا

ترا خیال کسی سائباں سے کم بھی نہیں
لگاتے رہ گئے سورج بھی قہقہے کیا کیا

شکستہ خوابوں کے جب آسمان کھلتے ہیں
بکھرتے نقش بھی دیتے ہیں حوصلے کیا کیا

ابھی بھی گھر کے لرزتے ہوئے چراغوں سے
ہوائے شب نے لگائے ہیں آسرے کیا کیا

تپش میں ٹوٹ کے پتے بکھر گئے عامرؔ
نظر کے پاؤں میں اٹھتے ہیں آبلے کیا کیا